انسان کی کہانی ۔ سچ کا کرب
صدیوں
نہیں، ازل سے ایک کہانی چل رہی ہے، روشنی اور اندھیرے کی کہانی، ایک چیلنج، ایک
عہد، ایک انکار
یہ
کہانی شروع ہوئی، اُس دن، جب خالق نے مٹی سے ایک وجود بنایا، اور اس میں اپنی روح
پھونکی۔
اور پھر حکم ہوا، سجدہ کرو
سب
جھک گئے، سب۔
سوائے، ایک کے۔
نہیں!
میں ہرگز نہیں جھکوں گا، میں آگ سے بنا ہوں، یہ مٹی سے، آگ مٹی کے آگے کیوں جھکے؟
نکل
جا! تُو راندہ ہے، قیامت تک تجھ پر لعنت ہے۔
ٹھیک
ہے، لعننت سہی
لیکن، مجھے مہلت دے، وقت دے، جب تک یہ انسان زندہ ہیں
میں انہیں بہکاؤں گا۔ میں ان کے دلوں میں وسوسے ڈالوں گا،
میں انہیں بھلا دوں گا کہ ان کا خالق کون ہے
میں اُن کی آنکھوں کے آگے دنیا کی چمک بکھیر دوں گا۔ اور
دیکھنا۔ اکثریت تیرے شکر گزار نہیں ہوگی
میرے
بندوں پر تیرا بس نہیں چلے گا، جو تیری پیروی کرے گا، وہ تیرے ساتھ جہنم میں ہوگا
اور
یہ ہے۔ آج کی دنیا
وہی چالاکی، وہی فریب، مگر چہرہ بدل گیا۔
اب شیطان تمہیں کہانیاں سنا کر نہیں بہکاتا، وہ تمہیں جواز
دیتا ہے۔
وہ برائی کو خوبصورت پیکنگ میں لپیٹ کر تمہارے سامنے
رکھتا ہے۔
وہ فحاشی کو آزادی کا نام دیتا ہے۔
ظلم کو سیاست کہتا ہے۔
دھوکہ کو بزنس سمجھواتا ہے۔
اور تم، تم اس کے جال میں مسکرا کر داخل ہو جاتے ہو۔
یہی
وہ راستہ ہے، جو ابلیس نے چنا، اور جو اُس کے پیروکار چنتے ہیں۔
لیکن یاد رکھو، ہر وہ دل جو سچ کی تلاش میں جھکے، ہر وہ
شخص جو سوال کرے، وہ فرشتوں کے راستے پر ہے۔
اور جو ضد کرے، تکبر کرے، جواز گھڑے، وہ شیطان کے ساتھ
ہے۔
فیصلہ،
تمہارے ہاتھ میں ہے۔
یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے، اور میدان، تمہارا دل
ہے۔