یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔ لیکن تم کیا بنو گے؟
کبھی
ایسا بھی وقت آتا ہے زندگی میں، جب سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے یوں چھن جاتا ہے جیسے
ریت کی مٹھی۔ تعلقات، خواب، مال و دولت، عزت، مقام — سب کچھ، ایک لمحے میں، بکھر
کر رہ جاتا ہے۔ اور ہم کھڑے رہ جاتے ہیں خاموش، حیران، اور تنہا۔ کوئی آواز نہیں
ہوتی، کوئی ساتھ نہیں ہوتا، نہ کوئی کندھا، نہ کوئی آغوش۔ ہم جنہیں اپنی دنیا
سمجھتے تھے، وہی ہمیں اجنبیوں کی طرح چھوڑ کر گزر جاتے ہیں۔ اور دل کے اندر ایک
چیخ سی اٹھتی ہے: کیا میری کوئی وقعت نہیں؟ کیا میری کوئی قیمت نہیں؟ یہ وہ لمحہ
ہوتا ہے جب انسان کی خودی وہ سچی خودی جو غرور سے نہیں، شکست سے جنم لیتی ہے ۔
سوال کرتی ہے کہ، تو آخر تھا کون؟ اور اب بنے گا کیا؟ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ
بندے کو دنیا کی گلیوں سے کاٹ کر، اپنے در پر بلاتا ہے۔ ایک بے آواز دعوت، جو کہتی
ہے۔ اب میرے ہو جاؤ، باقی سب فنا ہے۔
زخموں
کے ساتھ جینا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اُس وقت، جب آپ نے کچھ دیکھا ہو، کچھ
پایا ہو، اور پھر کھو دیا ہو۔ جو کبھی لوگوں کا مرکزِ نگاہ تھا، وہ اب خاموشی سے
زندگی کے کونے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ جو کبھی بلند آواز میں بات کرتا تھا، اب سر
جھکائے اپنی ہی سانسوں کو سن رہا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں سب سے بڑا فتنہ وہ دروازے
ہوتے ہیں، جو بند ہونے کے باوجود دل کو کھینچتے ہیں۔ وہ پرانی عادتیں، وہ غلط
محفلیں، وہ وقتی سکون، جو ایک لمحے کو تو دل کو نرم کرتا ہے، مگر روح کو گھائل کر
جاتا ہے۔ اور انسان سوچتا ہے کہ، شاید وہی بہتر تھا، کم از کم کچھ تو محسوس ہوتا
تھا۔ مگر اصل ہمت وہی ہے، جب آپ ان دروازوں کو جانتے ہوئے بھی، ان پر واپس نہیں
جاتے۔ جب آپ درد کے ساتھ جی لیتے ہیں، مگر اس دھوکے کے لیے خود کو دوبارہ نہیں
بیچتے۔ یہی تو اصل جہاد ہے ۔ نفس کے ساتھ، وقت کے ساتھ، تنہائی کے ساتھ، اور اس
معاشرے کے ساتھ، جو آپ کو صرف کامیابی کے لباس میں ہی پہچانتا ہے۔
اور
پھر، جب سب چپ ہو جاتے ہیں، جب دنیا کی محفلیں اجنبی لگنے لگتی ہیں، جب راتوں کی
تنہائیاں دل کو کاٹنے لگتی ہیں ۔ تو وہی ایک جگہ باقی رہ جاتی ہے۔سجدہ۔ ایک سادہ
سی جائے نماز، چند آنسو، اور ایک دل جو یہ جانتا ہے کہ وہ خالی ہے ۔ مگر اللہ کے
لیے کھلا ہے۔ اس لمحے انسان سمجھتا ہے کہ اصل طاقت دعا میں ہے، اور اصل سکون اللہ
کے "نہیں" میں ہے۔ کیونکہ جب اللہ تاخیر کرتا ہے، تو وہ دراصل تعمیر کر
رہا ہوتا ہے۔ جب وہ خاموش ہوتا ہے، تو وہ دراصل سن رہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ روکے
رکھتا ہے، تو وہ دراصل ہمیں محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وہ رب ہے، جو کہتا ہے تم مایوس ہو
گئے، لیکن میں نہیں ہوا تم سے۔ تو اے دل! رک جا، صبر کر، آنکھوں میں نمی رہے تو
بھی زبان پہ شکر رہے۔ کیونکہ جس رب نے تجھے چنا ہے، وہ کوئی معمولی کام تجھ سے
لینے والا ہے۔ تو بس یہ آزمائش برداشت کر، ان اندھیری راتوں کو کاٹ، اور اپنے رب
کے وعدے پہ یقین رکھ۔ کیونکہ وہ آزماتا ہے، مارتا نہیں۔ وہ توڑتا ہے، مگر بکھیرتا
نہیں۔ وہ گراتا ہے، مگر صرف اس لیے، تاکہ بہتر بنا کر اٹھا سکے۔