انسان کی کہانی ۔ جب کائنات میں آواز گونجی
جب
یہ کائنات ابھی خاموش تھی، وقت اپنی اولین سانسیں لے رہا تھا، اور خلا کی گود میں
تخلیق کا بیج ابھی بونا باقی تھا، تب ایک ارادہ، ایک منصوبہ، ایک مشیّت تھی جو
صفحۂ وجود پر آنے کو بےقرار تھی۔ اُس ارادے میں ایک مخلوق کا ذکر تھا۔۔۔ ایک ایسی
مخلوق جسے عقل دی جائے گی، شعور عطا ہو گا، اختیار دیا جائے گا، اور سب سے بڑھ کر
اسے وہ امانت دی جائے گی جسے اٹھانے سے زمین، آسمان اور پہاڑ لرز گئے۔ وہ مخلوق
انسان تھی۔۔۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسان کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ
کہانی کسی قصے یا داستان کی مانند نہیں۔ یہ انسان کی حقیقت، اس کے باطن کی صدا،
اور اس کی روح کی پکار ہے۔ یہ کہانی اُس جستجو کا نام ہے جو انسان کے دل میں ہر
زمانے، ہر تہذیب اور ہر قوم میں ایک آگ کی مانند دہکتی رہی ہے۔ میں کون ہوں؟ کہاں
سے آیا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟
انسان،
جب سے اس نے شعور کی آنکھ کھولی ہے، وہ ان سوالات کے تعاقب میں سرگرداں ہے۔ وہ
کبھی فلک کی وسعتوں میں جھانکتا ہے، کبھی زمین کے پردے چاک کرتا ہے، کبھی معبدوں
میں جھکتا ہے، کبھی تجربہ گاہوں میں جھانکتا ہے، کبھی فلسفے کے پیچیدہ جملوں میں
الجھتا ہے، کبھی مذہب کی روشنی میں راستہ تلاش کرتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس
کی اصل صرف مٹی ہے یا نور بھی؟ وہ حادثہ ہے یا تخلیق؟ وہ بےمقصد ہے یا اس کے وجود
کے پیچھے کوئی شعور، کوئی مصلحت، کوئی منصوبہ ہے؟
یہ
سوالات کسی عقیدت کی پیداوار نہیں، بلکہ شعور کی خود صدا ہیں۔ انکارِ خدا کی جو
آندھیاں جدید سائنسی ترقی کی چھاؤں میں چل رہی ہیں، وہ انسان کو بتاتی ہیں کہ یہ
سب کچھ اتفاق ہے۔ یہ کائنات، اس کا نظام، اس کی ترتیب، اس کا حسن، انسان کا وجود،
اس کی عقل، اس کی محبت، اس کی قربانی، اس کا فن، سب محض اتفاقات کی ایک زنجیر ہیں۔
زندگی ایک حادثہ ہے، موت ایک انجام ہے، اور بس۔
لیکن
اگر ایسا ہے، تو اس سے زیادہ مایوس کن چیز اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
کیونکہ انسان کا جسم شاید موت کو قبول کر لے، مگر اس کا شعور، اس کی آرزو، اس کی
امید، اس کی محبت، یہ سب موت کو قبول نہیں کرتے۔ دل کو یہ گوارا نہیں کہ وہ فنا
میں ختم ہو جائے۔ وہ مانتا ہے کہ ایک اور زندگی، ایک اور دنیا، ایک جواب دہی ضرور
ہونی چاہیے۔
یہی
شعور ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے ممتاز بناتا ہے۔ یہی وہ امانت ہے جو اسے دی
گئی۔ یہی اختیار ہے جس کی بنیاد پر وہ زمین کا خلیفہ ٹھہرا۔
کیا
تم نے کبھی سوچا کہ یہ اختیار، یہ ارادہ، یہ تمیزِ خیر و شر، یہ شعورِ حسن و قبح۔
یہ سب کچھ اگر محض نیورانز کی کیمیاوی حرکت ہے تو پھر انسان اور مشین میں کیا فرق
رہ جاتا ہے؟ اگر محبت محض ایک حیاتیاتی ضرورت ہے، اگر قربانی محض جینیاتی بقا کا
حربہ ہے، اگر حسن کا شعور صرف ایک نفسیاتی فریب ہے۔ تو پھر انسان کا کوئی مقام
نہیں، کوئی معنی نہیں، کوئی منزل نہیں۔
لیکن
اگر انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے، تو اسے جاننا ہو گا کہ اس کا خالق کون ہے؟ اس
کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ اس کی منزل کہاں ہے؟
یہی
سوالات میرے اندر بھی جاگے
لیکن
اللہ کے کلام نے میرا ہاتھ تھاما۔ یہ کتاب میرے لیے روشنی بنی، دلیل بنی، ہدایت
بنی۔ اس کتاب نے مجھ سے کہا
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا
اُس کی باز پُرس نہیں کی جائے گی؟
کیا انہوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ ہم نے اسے کیسے
بنایا، کیسے آراستہ کیا؟
قرآن
نے مجھے سکھایا کہ یہ کائنات گونگی نہیں، یہ گواہ ہے۔ یہ آسمان و زمین کی خاموش
زبان میں خدا کی گواہی دے رہی ہے۔ اور یہی وہ پیغام ہے جو قرآن لفظوں میں کہہ رہا
ہے۔
اس
کتاب نے مجھے بتایا کہ انسان کو آزاد ضرور چھوڑا گیا ہے، مگر بے ہدایت نہیں۔ نبوت
کا دروازہ بند ہوا، لیکن قرآن جیسی زندہ ہدایت قیامت تک کے لیے کھول دی گئی۔ یہ
کتاب نہ صرف محفوظ ہے، بلکہ تجربات، تاریخ، اور عقل کے ہر پیمانے پر سچی ثابت ہوئی
ہے۔
قرآن
نے کہا تھا کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو زمین پر غلبہ دے گی، اور تاریخ نے
دیکھا کہ ایک غیر متمدن قوم صرف ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی
طاقت بن گئی۔ قرآن نے کہا تھا کہ ہم نے اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت
کریں گے، اور چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کا ہر لفظ ویسے ہی محفوظ ہے جیسے
نازل ہوا تھا۔
یہ
سب کوئی افسانہ نہیں، یہ حقیقت ہے۔ اور اسی حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں انسان کی
کہانی کو سمجھنا ہو گا۔
یہ
کہانی صرف میرا یا آپ کا احوال نہیں۔ یہ کہانی اس لمحے کی ہے جب اللہ تعالیٰ نے
تمام مخلوقات کے سامنے ایک امانت پیش کی۔ زمین، آسمان، پہاڑ سب ڈر گئے، مگر انسان
نے، اپنی امیدوں کی بلندی پر، یہ امانت قبول کر لی۔ اسے اختیار دیا گیا۔ چاہے نیکی
کرے، یا بدی، مانے یا انکار کرے۔ یہی اختیار اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا
امتحان ہے۔
یہ
کہانی اس وقت بھی زندہ تھی جب آدمؑ کو سجدہ ہوا، اور اب بھی زندہ ہے۔
یہی
وہ کہانی ہے جسے قرآن مجید نے آیات میں بیان کیا، انبیاء نے عمل سے دکھایا، اور جس
کا ہر انسان کردار ہے۔
اگر
تم اپنے اندر موجود سوالوں کو سن سکتے ہو۔۔۔ اگر تم کائنات کی خاموش گواہی کو سمجھ
سکتے ہو۔۔۔ اگر تم شعور، اختیار، محبت، نیکی، قربانی، فطرت، موت اور زندگی کے
اسرار جاننا چاہتے ہو۔۔۔ تو یہ سفر تمہارے لیے ہے۔
یہ
صرف ایک کہانی نہیں، یہ تمہاری اپنی کہانی ہے۔
یہ انسان کی کہانی ہے۔