اہدِ الست ۔ انسان اور خدا کا پہلا مکالمہ

اہدِ الست ۔ انسان اور خدا کا پہلا مکالمہ


اہدِ الست ۔ انسان اور خدا کا پہلا مکالمہ

جب نہ زمین تھی، نہ آسمان۔۔۔ نہ وقت تھا، نہ لمحے۔۔۔ نہ کائنات کا ساز بجا تھا، نہ ذروں کی سرگوشی تھی۔۔۔ جب سب کچھ خاموش تھا، ساکن، بےحس۔۔۔ تب ایک آواز ابھری۔۔۔ ایک صدا گونجی۔۔۔ وہ صدا، جو ہر وجود کی تخلیق سے پہلے تھی، جو ہر لمحے کے پیچھے، ہر ذرے کے اندر، اور ہر روح کے سینے میں ثبت ہے۔۔۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

اور پھر۔۔۔ جیسے کائنات جاگ گئی ہو، جیسے خاموشی چیخ اٹھی ہو۔۔۔ ہر روح نے، ہر وجود نے، ہر آنے والے انسان، ہر گزرنے والے وقت، ہر سوچنے والے ذہن، اور ہر دھڑکتے ہوئے دل نے یک زبان ہو کر کہا۔
کیوں نہیں! ہم گواہی دیتے ہیں! ہم نے پہچانا! ہم نے مانا! تو ہی ہمارا رب ہے

یہ تھا انسان کا پہلا شعور۔۔۔ پہلا احساس۔۔۔ پہلا اقرار۔۔۔
وہ لمحہ جس میں انسان نے خدا کو پہچانا، اُس سے رشتہ جوڑا، اُس کے سامنے سجدہِ رضا میں جھکا… نہ کوئی شک تھا، نہ سوال۔۔۔ فقط معرفت، فقط تسلیم، فقط تعلق۔۔۔

پھر، وقت کو جنم دیا گیا۔۔۔ زمین بچھائی گئی، آسمان چڑھایا گیا۔۔۔ ستارے چمکنے لگے، ہوائیں چلنے لگیں، دریا بہنے لگے، پہاڑ مستحکم ہوئے، اور انسان کو نیند سُنا دی گئی۔۔۔ اُس اقرار کی نیند۔۔۔ اُس ملاقات کی نیند۔۔۔ اُس سچائی کی نیند۔۔۔

لیکن۔۔۔ وہ آواز، وہ صدا، وہ عہد۔۔۔ وہ کہیں گم نہیں ہوا۔۔۔ وہ دل کی گہرائیوں میں، روح کی تہہ میں، ضمیر کے دریا میں ہمیشہ سے موجود رہا۔۔۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جو انسان کی فطرت بن گیا۔۔۔
جیسے پانی کی فطرت ہے پیاس بجھانا
جیسے آگ کی فطرت ہے جلانا
جیسے روشنی کی فطرت ہے اندھیرے کو توڑنا
ایسے ہی انسان کی فطرت ہے اپنے رب کو پہچاننا!

پھر دنیا آئی، رنگ و نور کا میلہ لگا، خواہشوں کے جنگل اُگے، نظریات کے طوفان چلے، قومیں بنیں، مذاہب آئے، فلسفے تولے گئے۔۔۔ مگر وہ آواز۔۔۔ وہ "ألَسْتُ"۔۔۔ انسان کے لاشعور میں گونجتی رہی۔۔۔
وہ مسجد کی اذان میں بھی تھی
کسی ماں کی لوری میں بھی
کسی فلاسفر کی فکر میں بھی
کسی یتیم کی چیخ میں بھی
کسی سجدے کی خاموشی میں بھی
کسی قبر کی تنہائی میں بھی۔۔۔

کبھی انسان نے اسے سن لیا۔۔۔ تو خدا کو پا لیا
کبھی وہ دنیا کی چیخ و پکار میں گم ہو گیا۔۔۔ تو خود کو بھی کھو بیٹھا
لیکن جب بھی دل کے آئینے پر لگی گرد صاف ہوئی۔۔۔ وہی پرانی صدا ابھری۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

اور پھر۔۔۔ اس کا دل لرز گیا، آنکھیں نم ہو گئیں، اور لبوں پر بے اختیار اقرار آیا۔
تو ہی ہے میرا رب۔۔۔ تو ہی ہے میرا مالک۔۔۔ میں تیری ہی طرف لوٹ رہا ہوں۔۔۔

یہی وہ عہدِ الست ہے
یہی وہ ازلی سچ ہے
یہی انسان کی کہانی کا آغاز ہے
اور یہی اس کی آخری منزل بھی ہے۔۔۔

خدا نے انسان سے جو عہد لیا۔۔۔ وہی اسے بار بار یاد دلاتا ہے۔۔۔
کبھی کسی صدا میں۔۔۔
کبھی کسی درد میں۔۔۔
کبھی کسی سوال میں۔۔۔
اور کبھی۔۔۔ کسی جواب میں۔

  

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی