انسان کی کہانی ۔ خاک سے نور تک

انسان کی کہانی ۔ خاک سے نور تک


انسان کی کہانی ۔ خاک سے نور تک

اے انسان! ذرا ٹھہر، ذرا رُک، ذرا سانس لے، اور آنکھیں کھول کر اپنے گرد و پیش کو دیکھ۔۔۔ یہ ستارے جو فلک کی چادر پر چمکتے ہیں، یہ زمین جو تیرے قدموں تلے بچھا دی گئی، یہ پہاڑ جو زمانے کی گواہیاں اپنے سینے میں دفن کیے کھڑے ہیں، یہ دریا جو صدیوں سے بہتے چلے جا رہے ہیں ۔ ان سب میں ایک صدا گونج رہی ہے، ایک راز چھپا ہے، ایک دستِ قدرت کی جھلک ہے جو تیرے ہونے پر گواہی دے رہا ہے۔ اور تُو؟ تُو یہ کہہ کر گزر جاتا ہے کہ میں ایک حادثہ ہوں، میں ارتقاء کا ایک اتفاق ہوں، میں بندر کی بدلی ہوئی شکل ہوں، میں کائنات کی بے مقصد گونج ہوں؟ ارے نادان! کیا حادثات میں شعور ہوتا ہے؟ کیا اتفاقات فطرت کے قوانین بناتے ہیں؟ کیا بے جان ارتقاء عقل، جمال، تخیل، موسیقی، محبت، ہمدردی، قربانی جیسے جذبات کو جنم دے سکتا ہے؟ کیا اندھے اور بہرے عناصر تجھے سوچنے، محسوس کرنے، پوچھنے اور ماننے کی صلاحیت دے سکتے ہیں؟ تجھ میں وہی سوال کیوں جاگتا ہے

جو فرشتوں نے پوچھا تھا:

کیا تُو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟

اور پھر رب کا وہ جواب کیوں تیرے اندر گونجتا ہے

میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

سن انسان! تُو کوئی عام مخلوق نہیں، تُو خالق کی باضابطہ منصوبہ بندی کا شاہکار ہے، وہ مخلوق ہے جس کیلئے خود رب العالمین نے کہا:

میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ خلیفہ! یعنی نمائندہ! یعنی وہ جس پر اعتماد کیا جائے، جسے شعور عطا کیا جائے، جسے اختیار دیا جائے، جسے آزمائش میں ڈالا جائے، اور جسے جنت کا وارث بنایا جائے۔ مگر دیکھ، زمانے کا المیہ، انسان اپنی اصل کو بھول بیٹھا، اس نے اپنے ہی خالق کا انکار کر دیا، اور انکار بھی اس بنیاد پر کہ چند فوسلز ملے ہیں، چند ڈھانچے ملے ہیں، کچھ ڈی این اے کی مشابہتیں ہیں۔۔۔ وہ تو تیرا ہیوانی قالب ہے! اُس پر کیا اعتراض؟ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو مٹی سے بنایا، نطفہ بنایا، لوتھڑا بنایا، پھر گوشت کا لوتھڑا، پھر ہڈی، پھر گوشت سے ڈھانپا، پھر اپنی روح پھونکی۔۔۔ تُو وہی انسان ہے، وہی خاکی پیکر جسے زمین کی مٹی سے اُٹھا کر رب نے اپنی روح کا لمس دیا۔ تُو کہتا ہے، سائنس نے جان لیا! ارے جو چیز جان لی گئی، وہ تو تجھے رب نے جاننے کے قابل بنایا، وہی رب جو غیب میں رہ کر ظاہر کی دنیا تجھے سکھا رہا ہے۔ یہ فوسلز، یہ ارتقاء، یہ حیاتیاتی مراحل۔۔۔ سب اپنی جگہ، مگر یہ سب اُس تدبیر کا حصہ ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے تدریج کے ساتھ کائنات کو رچایا، بسایا، سنوارا… مگر انسان کی تخلیق؟ وہ مٹی سے شروع ہوئی، اور پھر اُسے عقل دی گئی، شعور دیا گیا، احساس دیا گیا، سوال دیا گیا، اور پھر ایک لمحہ وہ آیا جب اسے کہا گیا

اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی۔

اور وہ لمحہ قیامت سے کم نہ تھا! وہ لمحہ جب ایک بے جان، بے حرکت، بے شعور قالب، شعور کی چنگاری سے منور ہو گیا۔۔۔ اور وہ انسان بن گیا! وہ انسان جس کے سامنے فرشتوں نے سجدہ کیا، وہ انسان جو باغ میں رکھا گیا، جو آزمائش سے گزرا، جو دنیا میں بھیجا گیا تاکہ اپنے وعدے کو یاد کرے، اُس وعدے کو جو اُس نے (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں) کہہ کر رب سے کیا تھا! لیکن آج؟ آج وہی انسان، خدا کے وجود کا انکار کر رہا ہے؟ ارتقاء کو، سائنس کو، اور عقل کو خدا کی کرسی پر بٹھا دیا ہے؟ نہیں انسان، یہ تیری عقل نہیں، یہ تیری بھول ہے، یہ تجھ پر تاری وہ دھند ہے جو چرچ کی آمریت اور سائنس کے ردِعمل نے پیدا کی، یہ وہ فریب ہے جو تجھے ظاہر میں الجھا کر باطن سے محروم کر رہا ہے۔ تُو جس سائنس پر فخر کر رہا ہے، وہ خدا کی کاریگری کی صرف ہلکی سی جھلک ہے۔۔۔ کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ پہلی بار حیات کیسے پیدا ہوئی؟ کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ مادے نے قانون، نظم، اور مقصد کو کیسے جنم دیا؟ نہیں! سائنس صرف یہ بتاتی ہے کہ کیسے ہوا، یہ کبھی نہیں بتا سکتی کہ کیوں ہوا۔۔۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں فلسفہ دم توڑ دیتا ہے، جہاں سائنس چپ ہو جاتی ہے، اور جہاں قرآن بولتا ہے! وہ قرآن جو تیری تخلیق کا راز بھی ہے، تیری ہدایت کا چراغ بھی، اور تیرے رب کی آواز بھی! ہاں، یہی قرآن کہتا ہے کہ قیامت کا دن وہ دن ہے جب وہی مٹی میں دفن انسان دوبارہ اٹھایا جائے گا، وہی انسان جسے اپنی خلقت پر بھی شک ہے، اپنی ہستی پر بھی سوال ہے، اپنی روح سے غافل، اپنی اصل سے ناواقف! اے انسان! لوٹ آ اپنے رب کی طرف۔۔۔ اُس رب کی طرف جس نے تجھے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ بنایا، جس نے تجھے ایک ناپائیدار قطرے سے انسان بنایا، اور جس نے تجھے یہ شعور دیا کہ تُو سوال کر سکے۔۔۔ مگر سوال وہی معتبر ہوتا ہے جو جواب کی تلاش میں ہو، نہ کہ جواب سے بھاگنے کے لیے ہو۔ آ، سن، سمجھ، اور مان۔۔۔ کہ تُو حادثہ نہیں، تُو تحفہ ہے۔۔۔ ایک خدائی تحفہ۔

  

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی