سچ آندھی میں جلتا چراغ
اے
انسان!اے خاک کے پتلے، جو تو خود کو آسمانوں کا وارث سمجھ بیٹھا ہے، رک جا! ذرا
اپنے اندر جھانک کے دیکھ، اس دل کی خاموش دھڑکنوں میں وہ صدا سن، جو صدیوں سے تجھے
پکار رہی ہے ۔ وہ ہے صداۓ حق! وہ صدا جو نبیوں کی زباں سے نکلی، درویشوں کے فقر
میں چھپی، شہیدوں کے لہو سے لکھی گئی، اور مظلوموں کی آہوں میں گونجی۔ مگر تو ہے
کہ دنیا کے شور میں وہ آواز سننے سے قاصر ہے۔ یہ وہ آتش ہے جو دلوں کو جلاتی ہے،
مگر پاک کرتی ہے؛ وہ زخم ہے جو بدن کو تو چیرتا ہے، مگر روح کو آزاد کر دیتا ہے۔
باطل اپنے تخت پر بیٹھا قہقے لگاتا ہے، زر، زمین، طاقت اور تلوار اس کے ہتھیار
ہیں، مگر سچائی کے پاس صرف ایک چیز ہے — خالص نیت اور بے خوف لب۔ اے وقت کے مسافر!
جان لے کہ سچ بولنا صرف جملہ کہنا نہیں، یہ بغاوت ہے اس نظام کے خلاف جو جھوٹ کو
عزت اور سچ کو سزا دیتا ہے۔ یہ تلوار ہے، جو رشتوں کو کاٹ سکتی ہے، اور وہ چراغ
ہے، جو جلتے جلتے جلانے والے کو بھی نور عطا کر دیتا ہے۔ تو مت کہہ کہ تو کمزور
ہے، کہ جس نے یہ سچ کا علم اٹھایا، وہ کبھی تنہا نہ رہا — اُس کے ساتھ تاریخ رہی،
انصاف رہا، اور خدا رہا۔ ہر وہ قوم جو اس سے منہ موڑتی ہے، فنا کی راہوں میں گم ہو
جاتی ہے، اور ہر وہ فرد جو اس راہ پر ڈٹ جائے، وہ زمانے کو بدل دیتا ہے۔ یہ وہ
بادل ہے جو بن برسے نہیں جاتا، یہ وہ آندھی ہے جو جھوٹ کے محل گرا دیتی ہے، یہ وہ
چراغ ہے جو قبر کے اندھیرے میں بھی روشنی کرتا ہے۔ اے نفس کے اسیر! کب تک جھوٹ کے
دجل میں ڈوبا رہے گا؟ کب تک سچ سے نظریں چرائے گا؟ اُٹھ، ہمت کر، وہ بات کہہ جو دل
میں ہے، وہ سچ بول جو زمانے کو چبھتا ہے، کیونکہ یاد رکھ ۔ حق دب سکتا ہے، مٹ نہیں
سکتا؛ جھوٹ چھا سکتا ہے، باقی نہیں رہ سکتا؛ اور وہ لمحہ جس میں تُو سچائی کے ساتھ
کھڑا ہوگا، وہی لمحہ تیری اصل آزادی کا آغاز ہوگا۔